تحمّل عشق بقلم ملیحہ چودھری
قسط19
........................
"ہہہہہہ ! بول تو ٹھیک رہی ہو تُم .... وُہ خاتون اُسکے اس اس مشورے سے متفق نظر آ رہی تھی.. ہلکی سی مسکراہٹ جیری کے چہرے پر رینگ گئی.. جسکو با وقت اُسنے چھپایا تھا..
طویل خاموشی کے بعد جیری نے بولنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ... " جیوری اتنا کیا سوچ رہی ہو .. ارے میرا مشورہ ہے کہ تمہیں ہاں کرنی چاہیے کیونکہ وہ لڑکی تمہارے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوگی.... مبین چھن چھن کرتے ہوئے آئی تھی اُسکی آواز پر جیری نے پلٹ کر دیکھا .... تیس پینتیس سال کی یہ پتلی خوبصورت عورت جسکا بناؤں سنگھار بلکل نئی نویلی دلہن والا تھا... وُہ چلتی ہوئی جیوری کے برابر میں بیٹھ گئی تھی...
اور جیری کو دیکھتے ہوئے جیوری سے گویا ہوئی...
تُم اچھے سے جانتی ہو چہلم کے میلے میں بڑے بڑے رئیس زادیں آتے ہیں اور اُنکی ڈیمانڈ خوبصورت لڑکیوں کی ہوتی ہے... اس وقت ہمیں لڑکیاں نہیں مل پا رہی.. کیونکہ ہاتھ پاؤں دھو کر پولیس ہمارے پیچھے لگی پڑی ہے
"اور اس وقت چہلم کا میلہ زیادہ دور نہیں ہے اور لڑکیاں ہمارے پاس ہے بھی نہیں اس لیے آج تُم اُس لڑکی کو پیش نہ کرو ." مبین بیگم نے جیوری سے کہا تھا....
"ٹھیک ہے ! جیوری بیگم نے ہامی بھر لی تھی.. جیری کی توقع کے مطابق ابھی تک سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے...
"ہہہہ ! اللہ بس ایسے ہی کامیاب کرتا رہے .. اچھا ہے ابھی زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی خیر مجھے بہت جلد ان سب کا ڈیٹا چیک کرنا ہوگا..." وُہ آہستہ سے سر پر ہاتھ پھیرنے ہوئی خود میں ہی بڑ بڑائی تھی..
"میں چلتی ہوں !! وُہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی تو مبین بیگم نے اب اُسکا جائزہ لیا تھا.... "تو آپ ہے وُہ خوبصورت دوشیزہ .... اوپر سے نیچے تک اُسکا جائزہ لے کر مبین نے پوچھا جس پر جیری مسکرا دی.....
"جی ! مسکرا کر جواب دیا گیا... "ویسے حسن تو بڑا کمال کا ہے تیرا .. ایک ایک ساتھ کئی کو قابو کر سکتی ہو تُم .... ستائش نظروں سے مبین بیگم نے اُس سے کہا تھا... ایک دم جیری کا فیس ایکسپریشن بدلے تھے جنکو اُسنے ایک لمبی سانس بھر کر بھرپور طریقے سے کوشش کی تھے...
ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ لی گئی تھی ... "ہاں کر سکتی ہوں لیکن میں یہاں کے مردوں سے نہیں .... گھورتے ہوئے اُسنے مبین بیگم کو جواب دیا ایک ایک لفظ چبا کر ادا کر رہی تھی وُہ......
"پھر کہاں کے مردوں سے دل لبھانے کا ارادہ رکھتی ہو؟ مبین بیگم نے اُسکی انوکھی خواہش پر مسکرا کر پوچھا...........
"مسٹر ایکس !!! چہرے پر سختی سجائے اُسنے جواب دیا اور اُسکے اس جواب پر سب غوطہ زن تھے........
"مسٹر ایکس ?! ہاہاہاہا ہاہاہاہا دماغ خراب بھی ہے آج تک آج تک ہم اُس تک رسائی نہیں کر پائے اور تُم ہاہاہاہا ہاہاہاہا تُم اُسکی سیج سجانے کے خواب دیکھ رہی ہو .....
مبین بیگم نے قہقہ لگاتے ہوئے جیری سے کہا تھا.....
"بیگم صاحبہ میں جیا ہوں اگر ایک جھلک اپنے حسن کی دکھا دی تو سب پاگل ہو جائے گے... اور مجھے ہلکے میں مت لیجئے گا کیونکہ میں مبین نہیں جیوری نہیں میں جیا ہوں جیا ..!!
میرے نام کی بہت ملے گی لیکن مجھ جیسی کوئی نہیں میں ہر طرح کا ہنر خود میں رکھتی ہوں.... پتّھر جیتنے سخت تاثرات لیے وُہ کچھ قدم چل کر مبین بیگم کے نزدیک آئی اور تھوڑا سا جھکتے ہوئے اُسکے کانوں میں سرگوشی کی تھی....
پھر اپنا چہرا تھوڑا ترچھا کیا تھا اور جیوری بیگم کی طرف دیکھا جو اُسکے چہرے کو ہے دیکھ رہی تھی....
"سمجھا دینا اسکو.. اور مبین بیگم کے چہرے کی طرف آنکھوں میں آنکھیں دیکھ کر اُسکے کنپٹی پر اپنی شاہدت کی انگلی رکھی اور بولی...
"اچھے سے سن کر اس دماغ میں بیٹھا لینا...!!! جھٹکے سے کھڑی ہوئی اور پلٹ کر لمبے لمبے قدم بھرتے ہوئے نکل گئی تھی.... ایک مسکراہٹ اُسکے چہرے پر تھی پہلا قدم اٹھا کر کچھ پا لینے کی ..
ایک درد کی رمق تھی اُسکے چہرے پر کسی کے لئے اپنی جان وار کر اُس سے دور ہونے کی .....
ہائی عمر بھر منتظر رہوں گی مگر
آنے میں عمر نہ لگا دینا
......................💖💖💖💖
انڈیا کے حدود میں جیسے ہی اُسنے اپنے قدم رکھے تو ایک احساس اُسکے حواسوں پر چھا گیا تھا..
"دنیا کا کوئی بھی جہاں دیکھ لو لیکن جو سکون اپنے گھر اپنے وطن میں میسّر ہے وُہ کہی نہیں...
اُسنے چاروں اطراف میں نظریں دوڑا کر کوڈ سے کہا..
صحیح کہا کسی نے چڑیاں سارے جہاں میں اپنا کھانا تلاشتی پھرتی ہے لیکن رات میں آئے گی واپس اپنے ہی گھونسلے میں...
"چل بیٹا ری تو بھی آ گیا اپنے گھونسلے میں !! مسکرا کر اُسنے ٹرالی پکڑی اور آگے کو چل دیا.....
"ہائے جیری کتنی خوش ہوگی۔۔۔۔ جیری کے نام اور اُسکی آنکھوں کی چمک بڑھی تھی... نہ جانے کیسی ہوگی؟ کیا کرتی ہو گی ؟ مجھے بھی یاد کرتی ہوگی کہ نہیں ؟ کئی ساری سوچ جیری کے حوالے سے لیے وُہ اپنے قدم بڑھا رہا تھا......
ریحام حسین اس ملک کے چیف منسٹر کا پوتا تھا اُسکا انٹریسٹ شروع سے ہی سوشل میں تھا وہ بھی اپنے دادا کی طرح ایک ایماندار لیڈر بن کر عوام کی خدمت کرنا چاہتا تھا...
آج وُہ لندن سے ہائیر ایجوکیشن مکمل کر واپس انڈیا لوٹا تھا.... لمبا قد گندنمی رنگ گرین کانچ سی آنکھیں ترتیب سے بال سیٹ کیے واضح نمایاں ہوتا جسم وُہ خوبصورت تھا اپنی عادت اور اپنے نام کی طرح ..
وُہ چلتا ہوا ایئر پورٹ سے باہر نکلا تو اُسکا دوست منیش ملہوترا اُسکا گاڑی سے ٹیک لگائے اُسکا بے صبری سے انتظار کرتا پایا....
"ویلکم ٹو انڈیا .. گلے ملتے ہوئے منیش نے ریحام سے کہا... اور سفر جیسا گزرا ؟ اب وہ اُسکے گلے میں اپنا ہاتھ ڈالتے ہوئے پوچھ رہا تھا.....
"الحمدللہ!!! اٹ واز آ گریٹ ٹرپ.... مسکرا کر ریحام نے اسکو بتایا...
"اوۓ انگریز کی اولاد اپنی یہ انگریزی یہی پر چھوڑ دیں.. اور شرافت سے ہندی بول لیں یا پھر اپنی اردو پر دیکھ یہ رہے میرے ہاتھ ان پر رحم کھا اور انگریزی نہ بول...... معصومیت سے وُہ اسکے سامنے ہاتھوں کو جوڑے کھڑا تھا ریحام کو اُس پر بہت ہنسی آئی.....
اور بے اختیار اُسکا قہقہ بلند تھا "ھاھاھاھاھاھا ....
"اچھا اچھا نہیں بولتا ۔ ویسے ابھی بھی اتنی چڑ انگلش سے حد ہے بھئی... ایک بار پھر قہقہ لگایا گیا تھا.....
"ہاں تو بندہ اپنے ملک میں ایا ہے بھئی ہم ہے دیشی لوگ ہمکو اپنی ہی زبان پسند ہے ... اُسنے محبّت سے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا....
"بلکل وُہ بات اور کہی ہے ہی نہیں جو اپنے وطن میں ہے... ریحام نے دل سے اُسکی بات کی تائید کی تھی....
"اچھا بتہ شادی کا کھانا کب کھلا رہا ہے ؟ ریحام نے فرنٹ ڈور بن کرتے ہوئے سیٹ بیلٹ لگا کر اُسکے چہرے کے جانب دیکھ کر پوچھا تھا......
"بہت جلد!! مسکرا کر بتایا تھا.... ویسے ابھی تو ایک مشن ہے اسکو سر انجام دینا ہے پہلے اُسکے بعد سب کُچّھ ہوگا... گاڑی کو ڈرائیو کرتے ہوئے منیش نے بتایا ..
"اچھا!!! کیسا مشن ؟ اُسنے منیش سے پوچھا تو وہ خاموش رہا تھا.... "معافی چاہوں گا میرے جگری دوست لیکن میں اس مشن کے بارے میں کچھ نہیں بتہ سکتا.... منیش نے سامنے دیکھتے ہوئے بتایا ...
"ہہہہ!!! کوئی بات نہیں ! اچھا سب کیسے ہے گھر پر ؟ ریحام نے باتوں کا موضوع بدلتے ہوئے بطوں کا رکھ دوسری جانب کیا....
"سب ایک دم فٹ ہے ! خوشگواری سے بتایا گیا تھا..
اُسکے بعد چھوٹی موٹی شرارتیں اور لڑائی جھگڑے کرتے وہ دونوں اپنا سفر بہت یاد گار بناتے ہوئے اپنی منزل کی طرف بڑھ گئے تھے...
.......................💖💖💖💖
"چل لگا اسکو فون لگا اور بول کہ وہ بڈھا یہاں سے غائب ہو گیا.. شام نے اسکو نے اسکو گردن سے دبوچ کر اُسکے منہ میں اپنی انگلیوں کو گاڑتے ہوئے چلّایا۔۔۔
"ن نہ میں نہیں کروں گا فون... اُس آدمی نے گردن نا میں ہلا کر بمشکل ہی جواب دیا تھا....." پکّا نہیں لگائے گا تو اسکو فون ... ؟ شام نے چلّا کر اُسکے چہرے پر گھونسا جڑ دیا... وحشخس درد سے بلبلا اٹھا تھا......
"بول کرے گا فون کہ نہیں ؟ ایک بار پھر پوچھا گیا۔۔
"نہیں !!! ایک بار پھر گردن نا میں ہلائی گئی تھی..
"بلال ل ل ؟ شام نے اپنے کسی آدمی کو زور سے آواز دے کر پُکارا تھا وہ آدمی "جی سر !!! کرتا ہوا جن کی طرف حاضر ہوا تھا....
"ذرا مجھے میرا چاقو دے نہ .. اُسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے اپنی آدمی کو حکم دیا گیا تھا کچھ دیر بعد ہی اُسکے ہاتھ میں چمکیلی دھار والا بہت تیز دھار کا چاقو تھا... اُس شخص کی مانو اسکو دیکھ جان ہی نکل گئی تھی......
شام نے اُسکی ہتھیلی پر ایک دم سے بہت تیز رفتار میں کٹ لگایا تھا جس پر اُس آدمی کی چیخ کے ساتھ ساتھ خون کی فوار بھی پھوٹ پڑی تھی .....
"لاسٹ بار لاسٹ بار لگائے گا فون کہ نہیں ؟ اس بار اُسکی آنکھوں میں دیکھ وُہ شخص خوف زدہ ہو گیا تھا اُسکی آنکھوں سے اسکو اتنی وحشت نظر آ رہی تھی کہ اسکو اپنی موت نظر آنے لگی تھی....
"ممم میں کروں گا فون جلدی سے نکاہیت سے اُسنے اسکو دیکھ کر کہا .. شام کے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ رینگ گئی تھی.......
وُہ سیدھ کھڑا ہوا اور پھر سپاٹ چہرے سے اسکو حکم دے دیا گیا.... "بلال جلدی سے اس نمبر کو ٹریس کرو یہ کہاں کس جگہ پر موجود ہے ....
اپنے آدمی کو حکم دے کر اُسنے اُس شخص کو موبائل تھمایا تھا.... "چل لگا فون اپنے اُس بوس کو ... کانپتے ہاتھوں سے اُس آدمی نے نمبر ڈائل کیا اور کان سے لگایا تھا...... دو تین بیل کے بعد کال اٹھا کی گئی تھی....
" سسر سر و وہ بڈھا بھاگ گیا ہے... درد کی وجہ سے اُس شخص سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا..... بلال نے لیپٹوپ پر جلدی سے انگلیاں چلائی اور اُس نمبر کی لوکیشن چیک کی جس سے یہ کیشو بات کر رہا تھا......
شام نے اشارے سے بلال سے پوچھا تھا اُسنے انگوٹھے کے اوکے کا اشارہ کیا تھا اور پھر کال کٹ گئی تھی.......
"ہاں بلال کہاں کی ہے یہ لوکیشن ؟ شام نے جلدی سے پوچھا تو بلال بولا ...
"سر یہ نمبر حیدرآباد اور تلنگانہ کے درمیان واقع ارآباد کے قریب موجود اننت گیری ہلز کے گھنے جنگلات کی لوکیشن دکھا رہا ہے... بلال نے اسکو بتایا تھا۔۔۔۔۔۔
"ٹھیک میں نکلتا ہوں ایک کام کرو تُم اسکو لے کر یہاں سے خدمت خانے پہنچو میں رات تک آتا ہوں ... وُہ جلدی سے بول کر وہاں سے نکل گیا تھا۔۔
.......................💖💖💖💖
"ہیلو آج شام کو کوٹھے کا چکّر لگا آنا .. اُس جیوری سے پوچھ لینا کہ کتنی لڑکیاں اُسنے جمع کر لی ہے..
سعد احمد صاحب فون پر کسی سے بات کر رہے تھے.. "جی سر میں دیکھتا ہوں.!! دوسری جانب سے اُسنے جیسے اسکو کام ہو جانے کا یکین دلایا تھا...
"ٹھیک ہے!!!! سعد صاحب نے کال کاٹ کر ابھی موبائل کو ٹیبل پر رکھا ہی تھا کہ موبائل کی چنگھاڑ نے اسکو اُٹھانے پر مجبور کر دیا تھا....
"کیشو!!!!! اُنہونے بڑ بڑا کر فون اٹھا کر کان سے لگایا..
"کیا بات ہے ؟ سب ٹھیک تو ہے ؟ انہیں کچھ غلط ہو جانے کی بوں آ گئے تھی جسکو غلط ٹھہرنے کے لئے اُنہونے تصدیق چاہی ....
"سسر سر و وُہ وُہ بڈھا بھاگ گیا ہے !!! یہ خبر اُنکے پاؤں سے زمین نکال گئی تھی... "کیسے تُم سب کہاں مر گئے تھے جب وُہ بھاگا وہاں سے .." بھڑکتے ہوئے وُہ اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر چلّائے تھے.......
"میں آتا ہوں .. جلدی جلدی میں سعد صاحب اپنی اہم فائل وہیں چھوڑ گئے تھے......
سعد صاحب جس وقت گھر سے نکلے تھے رات کے نو بج رہے تھے... یہ گھر نا تو زیادہ بڑا تھا اور نہ ہی زیادہ چھوٹا... دور رہائش پزیر علاقے سے دور ایک سنسان جگہ اور یہ مشتمل گھر دیکھنے میں جیتنا کھنڈر لگتا تھا اُس سے کہی زیادہ یہ اندر سے خوبصورت اور محفوظ گھر تھا ایک کالے دھندے کے حوالے سے......
چاروں جانب سے جنگلوں سے گھرا یہ گھر کسی کو بھی اس جگہ کا نہیں معلوم تھا سوائے سعد صاحب اور اُسکے آدمی كيشو کے جسکا ابھی فون ایا تھا...
جیسے ہی اس گھر سے سعد صاحب کی گاڑی اس گھر کے حدود سے باہر نکلی تھی کہ ایک نوجوان چھپکے سے اس گھر میں اندر چھپتے چھپاتے چہرے کو کالے کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا کالے ہی کپڑوں میں ملبوس یہ شخص اٹھارہ سال کا کوئی لڑکا تھا....
سہز سہذ قدم رکھتا ہر جانب نظریں دوڑاتا ہوا وُہ اندر لاؤنج میں گیٹ تک گیا تھا ایک ہاتھ میں گن پکڑے وہ وُہ محتاط انداز میں گیٹ سے لگ کر کھڑا ہو گیا تھا.. اندر کے جانب اُسنے جھانک کر دیکھا جہاں دو حبشی نما شخص سوفو کے برابر میں کھڑے ہوئے اپنی ڈیوٹی دے رہے تھے...
وُہ جلدی سے محتاط ہوا .. دروازے لگ کر ایسے کھڑا ہو گیا جیسے یہاں مجسمہ بنایا ہوا ہو... گن کا ٹریگر ٹھیک کیا اسکو لوڈ کیا اور نشانہ باندھتے ہوئے سائلنسر گن کا ٹیگر دبا دیا.....
بس ایک لمحہ لگا تھا اُن دونوں کو شوٹ کرتے ہوئے اور وُہ دونوں شخص وہی ڈھیر ہو گئے تھے.. اُسنے اچھے سے چاروں اطراف میں دوبارہ دیکھا جب اسکو تسلّی ہو گئی کہ یہاں کوئی نہیں ہے تو محتاط انداز میں اندر بڑھا تھا گن کو اپنے پیچھے جینز میں دی اور وہاں ٹیبل کے پاس جا کر اُن پیپرز کو اٹھایا.. وہ ابھی مشاہدہ کر رہا تھا پیپرز وہاں پڑی فائلوں کا کہ اسکو کسی کے بوٹ کی آواز ادھر ہی اتے ہوئے سنائی دی تھی....
وُہ الرٹ ہوا اور جلدی سے ادھر اُدھر نظریں دوڑائی کہی چھپنے کے لیے.. سامنے اسکو الماری نظر وُہ برک رفتاری سے اُسکے پیچھے جا چھپا تھا....
ایک شخص گھر کے اندر آیا کروں اطراف میں دیکھا اور زور سے بڑ بڑا یا....
"ان سالوں کو کتنا بھی سمجھا لو کہ سامان کو ایسے نہیں چھوڑ کر جایا کرو لیکن نہیں ہمیشہ ایسے ہی جائے گے ۔" گندی سے والی دیتے ہوئے اُسنے سامان سمیٹا اور اسکو اٹھا کر الماری کی طرف چل دیا... اُس لڑکے کی سانس ہی رُک گئی تھی.. بمشکل وُہ اپنی سانس روکے کھڑا تھا جب تک اُسنے الماری میں وُہ کاغذات نہ رکھ دیئے الماری لوک کر کے وُہ شخص جیسے آیا تھا ویسے ہی واپس لوٹ گیا تھا...
وُہ الماری کے پیچھے سے نکلا ایک گہری سانس جو کب سے روکے ہوئے تھا اسکو لی اور الماری کے پٹ کھولنے لگا لیکن وہ تو لوک تھی کھلتی کیسے...
اُسنے جلدی سے اپنی جیب میں سے کچھ بریک سی چیز نکالی اور الماری کا لوک توڑ کر اسمیں سے کاغذات فائلیں وغیرہ نکالی اور وہاں سے چھپتے چھپاتے جیسے تیسے وُہ اس علاقے سے نکل آیا تھا...
ایک کلو میٹر دور علاقے سے آگے نکل کر اُسنے کسی کو میسج کیا اور اُسکا رپلائی آنے کا انتظار کرنے لگا قریب تیس سیکنڈ بعد اسکو رپلائی موصول ہوا تو اس نے اپنی بائیک سٹارٹ کی اور میسیج میں ملنے والے ایڈریس کی طرف روانہ ہو گیا تھا....
"کون تھا یہ شخص ؟ اور اسکی کیا دشمنی تھی سعد احمد سے ..؟ خیر وقت ہی بتائے گا...
.......................💖💖💖💖
وُہ پریشانی سے کمرے میں ٹہل رہی تھی ... بار بار کمرے میں لگی گھڑی کی طرف دیکھتی اور پھر سے چکّر لگانا شروع کر دیتی....
"کیا ہوا آپی ؟ عمائمہ جو بہت دیر سے خاموش بیٹھی اُسکی یہاں سے وہاں وہاں سے یہاں چکّر پر چکّر کاٹتے دیکھ رہی تھی اب اُس سے رہا نہیں گیا تھا تو پوچھ بیٹھی.......
جیری کے قدم ٹھہرے تھے.... اور اسکو دیکھ کر پھر سے سے چکّر لگانا شروع کر دیا تھا.....
"آپی کچھ تو بولے کیا ہوا کیوں اتنا پریشان ہے آپ میں آپکو دیکھ رہی ہوں دوپہر سے بہت پریشان نظر آ رہی ہے....
وُہ کھڑے ہوتے ہوئے جیری کے پاس گئی تھی اور اب پریشان سے پوچھ بھی رہی تھی۔۔۔
"نہیں گڑیاں کچھ نہیں آپ سو جاؤ ! اُسنے عمائمہ کو مطمئن کرنے کے لیے چہرے پر مصنوعی مسکرہٹ سجا کر کہا....
"اوکے آپی!! وُہ بولتے ہوئے کونے میں پڑی چار پائی پر جا کر لیٹ گئی تھی آنکھوں کو بند کر لیا تھا جبکہ جیری نے پھر سے ٹہلنا شروع کر دیا تھا.....
ایک دم سے کان میں لگی بلیو ٹوتھ میں کچھ وائبریشن ہوئی تو جیری نے ایک دم کان پر ہاتھ لگایا اور آہستہ آواز میں جلدی سے بولی...
"ہاں ہو گیا کیا کام ؟ اور اتنا لیٹ کیوں کال کی؟
دوسری طرف سے نہ جانے کیا کہا گیا تھا کہ جیری مطمئن ہوتے ہوئے بولی.... "ٹھیک ہے کل دوپہر میں تمہیں انڈیا چوک پر ملوں گی اُسکے بعد طے کر تے ہیں دونوں مل کر اوکے..!! کال کاٹ کر وُہ بھی اپنے پلنگ پر آ کر لیٹ گئی تھی.......
رات نہ جانے کون سا پہر تھا جب وہ آہستہ سے اپنی چار پائی سے اٹھی تھی پاؤں میں چپپل اُڑیستے ہوئے اُسنے اندھیرے میں ہی اپنے مطلوبہ ضروری سامان کو لیا اور آہستہ بغیر آواز کیے روم سے باہر نکل آئی..... پورے ہال میں اندھیرا گپ تھا... وُہ جس جگہ قیام فرما تھی وُہ رقص اور باقی کے فضولیات کام والی جگہ سے الگ تھا یہ کوٹھا دو الگ الگ حصّوں میں بنٹا ہوا تھا ایک پورشن تو رقص موسیقی اور باقی کے کام کے لیے تھا جبکہ دوسرا پورشن وہاں پر آرام کرنے کی غرض سے رکھا ہوا تھا...
اس وقت دونوں پورشن میں اندھیرا تھا کیونکہ آج کوٹھا بند تھا .... پتہ نہیں کس وجہ سے لیکن آج کی رات ہر باہر کے ایرے غیرے انسان کا کوٹھے میں آنا ممنوع تھا... اور یہ ہی بات کیپٹن جیری کو ہضم نہیں ہو رہی تھی....
اُسنے جیسے ہی ہال میں قدم رکھا تھا کہ اسکو کئی آوازیں سنائی دی تھی... " یہ یہ کیسے آوازیں ہے ؟ اور کدھر سے آ رہی ہے ؟ وہ آوازوں کے تعاقب میں توجہ سے لگاتے ہوئے خود سے ہی بولی تھی....
بہت توجہ کے بعد بلا آخر اسکو پتہ چل گیا تھا کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی تھی.... وُہ اُس طرف بڑھ گئی جہاں سے اسکو آوازیں آ رہی تھی... جیتنا قریب وُہ جا رہی تھی اتنی ہی با آسانی سے وُہ اواز کو سن سکتی تھی .....
ایک کونے سے ہلکی ہلکی روشنی اسکو نظر آئی اُسکے قدم ایک دم ٹھہرے اور فر غور سے دیکھا جہاں سے روشنی نظر آ رہی تھی.... وُہ ایک دیوار تھی جبکہ غور کرنے پر وُہ دروازہ لگا اسکو..... اُس دروازے پر بھی بلکل دیوار کی طرح پینٹ کیا گیا تھا اس لیے اسکو دیکھ کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہی یہ دروازہ ہے یا دیوار.....
آہستہ آہستہ بغیر آواز پیدا کیے وُہ اُس گیٹ تک پہنچی اور ہلکے سے دروازے کو واہ کیا... اور اندر دیکھنے کی کوشش کی گئی...
اندر جو دیکھا اُسکے حواس سلب کر گئے تھے اُنکو دیکھ کر...
"بارہ سے پچیس چھبیس سال تک کی نوجوان لڑکیاں تقریباً ساٹھ ستر ہوگی جن پر تشدّد کیا جا رہا تھا.... بیچاری وُہ لڑکیوں درد سے بلبلا رہی تھی..
"ایک بچی جو قریب سولہ سال کی ہی ہوگی محض اُس پر ایک شیطان.. استغفِرُاللہ!! بے اختیار اُسکے آنکھوں سے آنسوں بہ نکلے تھے... اسکو اُن لڑکیوں کے درد کے آگے خود کا درد رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں لگ رہا تھا......
"جیری ظلم کرنے والے سے بڑا ظالم ظلم دیکھنے والا اور اسکو سہنے والا ہوتا ہے.. " نیلم نیازی کے کہے گئے الفاظ اسکو اپنے کانوں میں سنائی دیے تھے...
"صحیح کہا تھا مس نیلم نیازی آپنے !!!! ظلم کرنے والے سے زیادہ ظالم ظلم دیکھنے والا ہوتا ہے .. اور میں ہرگز ظالم نہیں ہوں...
" جب تک میرے جسم میں اس ملک کہ لہو دوڑ رہا ہے اور میرے وجود میں سانسیں رقص کر رہی تب تک میرے دین کی رحمتوں اور اُسکی نعمت کو کوئی بھی اب گندی نظروں سے دیکھیں گا میں اُسکا سر قلم کر دوں گی یہ میرا خود سے وعدہ ہے..
"جب تک میں ہوں کوئی نہیں چھو سکتا اور جس دن میری روح پرواز کر گئی اُسکے بعد " فی امان اللہ !!! اُسکی آنکھوں سے خون چھلک رہا تھا.. آنکھوں میں اتنی سختی اُسکی کے دیکھنے والا ڈر جائے.. وہ ایک عزم سے کہتی ہوئی وُہ پلٹی تھی... واپس اپنے کمرے میں آئی اور ایک نظر عمائمہ کے اوپر ڈال کر لیٹ گئی تھی.....
اسکو نیند پھر بھی نہیں آنی تھی. منظر کو نقطہ نظر رکھتے ہوئے وہ پوری رات سوچتی رہی بلا آخر فجر تک وُہ ایک نتیجے پر پہنچی اور پر سکون ہو کر نماز ادا کرنے کے لیے بستر سے آٹھ گئی تھی
.........................💖💖💖💖
اسکو یہاں پہنچتے پہنچتے ڈھائی گھنٹے لگ گئے تھے.. وُہ اکیلا تھا پوری تیاری کے ساتھ وُہ یہاں آیا تھا... گاڑی کو اس اریا سے تھوڑا الگ کھڑے کرتے ہوئے وُہ پیدل ہو لیا اور ایک مسافر کی طرح پیدل چلتے ہوئے وُہ اننت گری ہیلز کے گھنے جنگلات میں پہنچ گیا تھا....
اُسنے اپنی سائلنسر گن باہر نکالی اور محتاط سا اپنے قدم اُس گھنے جنگل میں رکھ دیئے تھے.... ہر چیز پر باریکی سے نظر رکھیں۔ وُہ آگے بڑھ رہا تھا اسکو یہاں پر کو۔ بھی غیر معمولی بات ابھی تک نظر نہیں آئی تھی.... جھاڑیوں کو ہاتھوں سے ہٹاتے ہوئے وُہ آگے بڑھ رہا تھا جب اُسکا پاؤں کسی چیز میں پھنس گیا ... " جیری خیال سے !! بے اختیار منہ سے نکلا تھا......
حیرت کی بات تھی کہ وہ پھنسا خود تھا اور خیال کرنے کو جیری کو کہا جا رہا تھا... اسکو خود پر حیرت ہوئی .... "ہہہہ یہ لڑکی ہمارا پیچھا نا جانے کب چھوڑے گی.... کھڑا ہوتے ہوئے اُسنے سوچا اور پھر خود کو سنبھالتے ہوئے آگے بڑھ گیا .. گرنے کی وجہ سے اُسکے ہاتھ پر ایک کٹ لگ گیا تھا جو بہت گہرا لگتا تھا خیر یہ شام احمد کے لیے معمولی سا تھا .....
محتاط سا وُہ چاروں اطراف میں دیکھ رہا تھا جب اُسکی نظر ٹوٹے پھوٹے ایک گھر پر پڑی... ایسا لگتا جیسے اس جگہ برسوں سے صفائی نہ ہوئی ہو..
"یہ جگہ ہے جس پر وہ وُہ حرامی کتّا اپنا کالا دھندا کرتا ہے... بھڑکتے دل سے اُسنے اسکو گالی سے نوازتے ہوئے آگے بڑھ گیا ہر طرف خاموشی کا سماں تھا ..
"اتنی خاموشی ؟ اسکو یہاں کوئی بھی آدمی نظر نہیں ایا.. بڑی حیرتناک بات تھی... "کبھی یہ ٹریپ تو نہیں !!! دماغ نے سائرن دیا.. جبکہ دل دماغ کی منفی کرتے ہوئے گویا ہوا... " نہیں ٹریپ نہیں ہے آگے بڑھو تُم ڈرتے نہیں ہو .... تمہارا مقصد ڈرنا نہیں ہے بلکہ ڈر کو ڈرا کر بھگانا ہے....
"ڈر سے ڈر کے جو بھاگ گیا وُہ ڈرپوک کہلایا جو ڈر کے سامنے سینا تان کھڑا ہوا وُہ بادشاہ کہلایا.
ایک آخری جھاڑی کو ہاتھوں سے ہٹا کر وُہ اس گھر کے سامنے جہ کھڑا ہوا تھا... اس بھیانک جنگل میں جانوروں کا بہت ڈر تھا جسکے وجہ سے یہاں پر کوئی بھی آنے سے پہلے سو بار سوچتا تھا... وُہ محتاط سا چھپتے چھپاتے دروازے کے پاس پہنچا اور دھڑام سے دروازہ کھولا تو سامنے خالی گھر نے اُسکا استقبال کیا ....
سامان اِدھر اُدھر پھیلا ہوا تھا الماری کا پٹ کھلا ہوا تھا خون کے دھبّے سوکھ گئے تھے.. صورتِ حال کو دیکھ کر اسکو سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی کہ یہاں اُس سے پہلے کوئی آ کر جا چکا ہے.....
سارا سامان الٹ پلٹ کیا ہوا تھا... یہاں اُسکے کام کی کوئی بھی چیز نہیں تھی.... وُہ غصے سے الماری کی طرف بڑھا اور اس میں ایک ایک سامان کو تلاشنے لگا... لیکن بے سود ٹھہرا... "کونننننننن ؟ کون آیا تھا یہاں ؟ ہمارے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے ؟ دماغ کے گھوڑے دوڑانے پر بھی وُہ پتہ نہیں لگا پایا تھا کہ کون ہو سکتا ہے ؟ غصے سے اُسنے سارا سامان الماری سے باہر نکال پھینکا ... کچھ گر کر ٹوٹنے کی آواز پر وُہ ایک دم سے ٹھہرا اور فر فرش پر دیکھا جہاں کانچ ٹوٹ کر چکنا چور ہوا پڑا تھا جبکہ اسمیں سے کچھ گول گول چمکتی ہوئی چیز دکھائی دی....
وُہ جلدی سے فرش پر بیٹھا اور اس چیز کو جھک کر اٹھایا.. وُہ اور کُچّھ نہیں بلکہ ایک CD تھی جسمیں کوئی ویڈیوں فلم وغیرہ محفوظ رہتی ہے...
"یہ کس چیز کی ہے ؟ آگے پیچھے سے اُسکا جائزہ لیتے ہوئے بولا اور پھر اسکو پکڑ کر جلدی سے کھڑا ہوا ہے جانب ایک بار پھر تلاشی لی اس بار بھی کچھ ہاتھ نہیں لگا تو وہ اُس سی ڈی کو لیے وہاں سے نکل آیا......
وُہ جب اپنے اپارٹمنٹ پہنچا اُس وقت رات کے ڈھائی ہو رہے تھے.. سب سے پہلے اُسنے شاور لیا اُسکے بعد اپنے لیے کافی بنائی اور بیڈ پر بیٹھ کر لیپ ٹاپ ٹانگوں پر رکھ کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے اُسنے وُہ سی ڈی ، سی ڈی پلیئر میں ڈالتے ہوئے لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلانے لگا... اُسکی انگلیاں پوری رفتار سے اسکورل کر رہی تھی.. ایک جگہ جا کر اُسکی انگلیوں نے ہلنا بند کیا اور ایک پر پریس کرتے ہوئے ایک ویڈیوں اُسکے سامنے کھلی تھی. سمعان ویڈیو اور غور کرتا کہ اُسکے موبائل فون کی گھنٹی نے اسکا دھیان اپنی طرف مبذول کرایا تھا.... اُسنے ویڈیو کو فیوز کیا اور کال اٹینڈ کرتے ہوئے کان سے لگایا تھا.....
"ہیلو ! دوسری طرف سے بلال نے شام کو انفارمیشن دی "سر آپ ابھی تک نہیں آئے ہیں اور ان انکل کی حالت بہت ابتر ہے ..
"سوری یار بسس دھیان سے نکل گیا !!! اچھا میں آتا ہوں بولتے ہوئے اُسنے ویڈیو بعد میں دیکھنے کا ارادہ کیا اور لیپ ٹاپ کو سوئچ آف کرتے ہوئے اُسکی جگہ اور رکھ کر اپنی گاڑی کی چابی اور بھی مطلوبہ ضروری سامان لے کر اپنے اپارٹمنٹ سے باہر نکل آیا تھا.....
وُہ گاڑی کا دروازہ ابھی کھول کر بیٹھنے ہی والا تھا جب اُسکی نظر اپنی گاڑی کے کھڑکی کے کنارے پر ایک کاغذ پر پڑی....
"یہ یہ کیا ہے ؟ کاغذ کا ٹکڑا اٹھا کر اُسنے اُسکا جائزہ لیا جو کہ کئی تہ میں بند تھی......
شام نے کاغذ کو کھولا تھا اور اسکو آگے پیچھے سے دیکھا جو کہ بلکل بلینک تھا کچھ بھی نہیں لکھا ہوا تھا اُس کاغذ پر.....
"ابھی وقت نہیں ہے بعد میں دیکھتا ہوں . یہ بول کر اُسنے اسکو ویسے ہی فولڈ کیا اور گاڑی میں بیٹھ کر اسٹیئرنگ کو سنبھالتے ہوئے گاڑی کو خدمت خانے کی طرف موڑ لی تھی.....
خدمت خانے تو اسکو ویسے ہی بولتے تھے اصل میں یہاں پر مجرم سے پوچھ تاچھ کی جاتی تھی اور اگر مجرم نا بتے تو اس پر اسکو وہاں پر سزا دے کر زبردستی سچ کو اُگلوایا جاتا تھا.... اس لیے اسکو خدمت خانہ کہتے تھے ویسے یہ ایس آئی ڈی کا ایک فاؤنڈیشن تھا جس میں مجرم کو رکھا جاتا تھا...
(ایس بی پی) یعنی سکیرٹلی دا بیسس آف پنیشمینٹ خفیہ طور پر سزا کی بنیاد نام تھا اُسکا...
یہ ایس آئی ڈی ہیڈ کوارٹر سے کچھ ہی دوری پر تھا. اسکو وہاں جانے میں ایک گھنٹہ لگ جانا تھا. رات کا پہر تھا ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا.. اس لیے وہ ریش ڈرائیو کرتے ہوئے وُہ ایس بی پی جانے کی پوری کوشش کر رہا تھا.......
خیر جو بھی تھا اُسکے دماغ میں بسس ایک ہی چیز چل رہی تھی اور وہ تھی ویڈیو...
"آخر کیسی تھی وُہ ویڈیو اسمیں کون سا راز چھپا ہوا تھا ؟ جو بار بار شام جیسے سنجیدہ بندے کو بھی اپنی طرف کھینچ رہا تھا... وُہ کوشش کرنے کے باوجود بھی اپنا دھیان ڈرائیونگ پر نہیں لگا پا رہا تھا.......
"کیوں آخر کیا وجہ تھی؟
...........................💗💗💗💗
اگلی قسط بہت جلد ملے گی انشاءاللہ اُمّید ہے آپکو میری ایپی بہت پسند آئی ہوگی ۔۔۔۔